تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | کریمہ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا سرکار باب الحوائج حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی دختر نیک اختر اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خواہر گرامی ہیں۔ یہ وہی بی بی ہیں جنکی ولادت سے بہت پہلے اللہ کے صادق رسولﷺ کے صادق جانشین امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا تھا:
قم میں میری نسل کی ایک خاتون جنکا نام فاطمہ بنت موسی ہو گا وہ دفن ہوں گی جنکی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں جائیں گے۔(مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶۔)
جب آپ تقریباً پانچ برس کی تھیں تو آپ کے والد ماجد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے اپنے مسائل دریافت کرنے کی خاطر چاہنے والے بیت الشرف پر حاضر ہوئے لیکن امام علیہ السلام تشریف فرما نہیں تھے تو سائلین اپنے سوالات کے جوابات نہ ملنے پر فکرمند تھے کہ اچانک پشت پردہ سے آواز آئی کہ اپنا سوالنامہ دیں اور تمام سوالات کے جوابات کرامت فرما دئیے۔
جب یہ لوگ لوٹ رہے تھے تو راستہ میں امام علیہ السلام کی زیارت ہوئی تو ان کو وہ جوابات دکھائے گئے تو امام موسی کاظم علیہ السلام نے جوابات دیکھ کر فرمایا: ’’فداھا ابوھا ‘‘یعنی اس پر اس کا باپ فدا ہو جا ئے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی بہن تھیں یا خاندان عصمت و طہارت سے تعلق رکھتی تھیںلہٰذا اس مرتبہ پر فائز تھیں؛بلکہ آپ اس مقام و مرتبہ کے لائق تھیں، ورنہ کتنے امامزادے تھے جن کو یہ مرتبہ نہ مل سکا بلکہ بعض کو خود معصومین علیہم السلام نے روکا اور ٹوکا بھی ہے۔
حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام کی ولادت یکم ذیقعدہ ۱۷۳ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی اور۱۰ ربیع الثانی۲۰۱ھ میں قم مقدسہ میں شہید ہوئی ہیں۔ (نور الآفاق، جواد شاہ عبدالعظیمی)
لقب: آپ کا مشہور ترین لقب ـ’’معصومہ‘‘ ہے ۔آپ کو اس لقب سے خود حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے ملقب فرمایا ہے۔( مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۵۴۷.) نیزآپ کو ’’کریمہ اہلبیت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لقب مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ کے والدماجد آیۃ اللہ سید محمود مرعشی نجفی علیہ الرحمہ کے اس خواب سے مستند ہے جس میں ائمہؑ میں سے کسی ایک نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو کریمۂ اہل بیتؑ سے پکارا ہے۔(مہدی پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۴۱و۴۲)
شادی: مشہور ہے کہ آپ کی شادی نہیں ہوئی اور شادی نہہونے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔ جیسے کہا گیا ہے کہ آپ کا کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہوئی۔(مہدیپور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۱)اسلای تعلیمات میں شادی میں کفو ہونے کو خاص اہمیت حاصل ہے تا کہ احقاق حق، ابطال باطل، احیاء دین اور تبلیغ اسلام میں کوئی دشواری نہ ہواور اصلاب شامخہ اور ارحام مطہرہ کی تطہیر پر کوئی حرف نہ آ سکےجیسے جناب عبدالمطلب نے قیصر روم کی اکلوتی بیٹی کے رشتہ کو ٹھکرا کر جناب سلمی سے شادی کی، جناب عبداللہ نے بی بی آمنہ سلام اللہ علیہا کو اپنا شریکہ حیات منتخب کیا جب کہ اس سے پہلے کئی رشتوں سے انکار فرما یاتھا، حضرت ابوطالب نے جناب فاطمہ بنت اسد سے وصلت فرمائی اور ہمارے حضور ﷺ نے ملیکۃ العرب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے رشتہ کو قبول فرمایا۔ اسی طرح صدیقۂ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مولائے کائناتؑ سے شادی کے سلسلہ میں رسول اکرم کی مشہور حدیث ہے: ’’لَوْ لَا عَلِيٌّ لَمْ يَكُنْ لِفَاطِمَةَ كُفْو‘‘ اگر علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہوتا۔ ( زندگانی حضرت زہرا علیہاا السلام،روحانی، محمد،ص۵۴۲ )اسی طرح دوسری روایت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: لَوْ لَا أَنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ علیهالسلام تَزَوَّجَهَا لَمَا كَانَ لَهَا كُفْوٌ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ ‘‘ اگرامیرالمومنین علیہ السلام کی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے شادی نہ ہوتی تو قیامت تک روئے زمین پر آپ کا کوئی کفو نہ ہوتا نہ آدم اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اور۔ ( زندگانی حضرت زہرا علیہا السلام،روحانی، محمد، ص ۱۳۲)کیونکہ زوجہ چاہے صدیقۂ کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہی کیوں نہ ہوں ان پر بھی شوہر کی اطاعت لازم ہے ، جب وہ لوگ جن کے ظلم و ستم اور انکی اسلام دشمنی کے سبب آپ ان سے ناراض تھیںاور اس ناراضگی پر آپ تاحیات ثابت قدم بھی تھیں وہ آپ سے ملاقات کے لئے آنا چاہتے تھے تو آپ نے ان سے ملاقات سے انکار فرما دیا لیکن جب حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے آپ سے فرمایا تو آپ نے بغیر کسی چوں وچرا قبول فرما کر رہتی دنیا تک کی خواتین کو درس دیا کہ شوہر کی اطاعت فرض ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا جو محافظ مقصد حسینی اور شریکۃالحسین ہیں ان کی شادی خود امیرالمومنین علیہ السلام نے کی جنھوں نے تعمیر کربلا کے لئے حضرت عباس علیہ السلام کے سلسلہ میں خاص اہتمام فرمایا تھاتو کیسے ممکن ہے کہ آپ بعد کربلا تحفظ کربلا کے لئے خاص اہتمام نہ فرماتے اب ایسی صورت میں کہ جب کردار زینبی کے ایک اہم رکن حضرت عبداللہ بن جعفر ہوں تو ان کی شخصیت کو مشکوک بنانا نہ فقط اسلام بلکہ انسانیت کے پاسبان واقعہ کربلا میں خلل ایجاد کرنا ہے۔
دنیا سے کوچ: تاریخی شواہد کی بنیاد پر حضرت فاطمہ معصومہ نے ۲۰۰ھ کو مدینہ سے خراسان کا سفر فرمایا۔ جب آپ کا کاروان مقام ساوہ پر پہنچا تو دشمنوں نے آپ کے کاروان پر حملہ کیا جس میں سب شہید ہو گئے اور بعض روایات کی بنیاد پر خود آپ کو بھی زہر دے دیا گیا۔ آپ نے سوال کیا کہ قم یہاں سے کتنی دور ہے؟ ادھر شہر قم کے سردار کو پتہ چلا تو آپ کو لینے ساوہ تشریف لے گئے غمگین ماحول میں آپ کا استقبال ہوا اور ۱۷ دن بعد آپ دنیا سے کوچ کر گئیں۔ غسل و کفن کے بعد باغ بابلان میں آپ کو دفن کیا گیا جہاں آج آپ کا عالیشان روضہ تعمیر ہے۔
زیارت کی فضیلت: آپ کی زیارت حضرت امام رضا علیہ السلام سے ماثور ہے نیز حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: جس نے ان (حضرت معصومہؑ) کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی۔ (ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵۔) دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے ان کی زیارت کی بہشت اس کی ہے۔ (عیون اخبار الرضا ؑ، ج۲، ص۲۷۱؛ مجالس المؤمنین، ج۱، ص۸۳)حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: جس نے قم میں میری پھوپھی کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔ (کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷)اسی طرح علمائے ابرار کی روش رہی ہے کہ وہ آپ کی زیارت کے لئے حرم مطہر تشریف لاتے تھے اور آج بھی آپ کی زیارت کا خاص اہتمام فرماتے ہیں۔آیۃاللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی قدس سرہ نجف اشرف سے قم تشریف لائے اور چالیس برس تک مسلسل روزانہ پہلے زائر ہوتے تھے۔ حضرت امام خمینی قدس سرہ جب بھی قم میں ہوئے کبھی زیارت ترک نہ فرمائی اور زیارت کے بعد الٹے قدم واپس ہوتے تھے کبھی ضریح مبارک کی جانب پشت نہیں کرتے تھے۔ ملا صدرا اعلیٰ اللہ مقامہ برہنہ پا حرم مطہر میں داخل ہوتے اور زیارت سے مشرف ہوتے تھے اور آپ خود فرماتے تھے کہ بہت سے علمی مسائل جن کے حل سے میں عاجز ہوتا تھا لیکن زیارت کر تے ہی وہ مسائل حل ہو جاتے تھے۔
مرکز علم واجتہاد: مدینۃالعلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ، باب مدینۃالعلم حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے علم کی وارث اور امامین صادقین علیہماالسلام کے آثار علمی کی پاسبان حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا حرم بلکہ پورا شہر نہ فقط ایک زیارت گاہ ہے بلکہ علوم و معارف کا وہ اقیانوس ہے جس کے علم کا شہرہ پوری دنیا میں ہے۔اوروہاں رہنے والا ہربشر اپنے ظرف کے مطابق اس سے بہرہ مند ہورہا ہے اور اپنی علم و معرفت کی تشنگی کو سیراب کر رہا ہے۔
اگرچہ حوزہ علمیہ قم کی تاریخ حضور ائمہ علیھم السلام سے ملتی ہے، ائمہ معصومین علیھم السلام کے محدث و مفسراصحاب کی کثیر تعداد کا مسکن یہی شہر مقدس رہا لیکن بنام حوزہ علمیہ اسکی بنیاد حضرت آیۃاللہ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃاللہ علیہ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے رکھی ۔ اور یہ اسی کریمہ کا کرم ہے ایک ریگستان گلشن علم و اجتہاد ہو گیا۔ اور یہاں کے پھولوں نے جہاں انسانیت اور آدمیت کے مشام کو اپنے علم و معرفت کے عطر سے معطر کیا وہیں انسانیت دشمنوں کا قلع قمع بھی کیا اور انکو للکارا بھی اور آج بھی الحمدللہ و لہ الشکر یہ سلسلہ قائم ہے۔ جوار معصومہ سلام اللہ علیہا کے تربیت یافتہ علم و عمل کے جیالوں نے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کو نہ فقط للکارا بلکہ اس کا تختہ پلٹ دیا۔ اور آج بھی نہ فقط ایران بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں یہ سورما باطل کو للکار رہے ہیں۔ سعودی عرب، لبنان، شام، بحرین ، عراق وغیرہ میں اس کے آثار نمایاں ہیں۔
صلی اللہ علیک یا بنت رسول اللہ یا فاطمۃاشفعی لنا فی الجنۃ فانا لک عنداللہ شانا من الشان۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔